حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی 9نومبر ”یوم اقبال“ پر اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے پاکستان کو اسلام کا مرکز اور قلعہ بنانے کا جو فلسفہ دیا اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا، ان کے فلسفہ خودی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ کسی لحاظ سے قابل فخر نہیں ہے ۔ آج اگر اقبال اپنے وجود کے ساتھ ہمارے پاس ہوتے تو پاکستان کی حالت زار دیکھ کر خون کے آنسو روتے کیونکہ پاکستان آج بھی حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہے، اس کی سا لمیت اور خود مختاری آج بھی داﺅ پر لگی ہوئی ہے، عوام آج نا انصافی اور مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں ، اس کی سرحدیں آج بھی اجنبی اور اس پر آج بھی مغربی اور یورپی ثقافت کی یلغار جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے حکمران اور پھر عوام اپنے آپ کو علامہ اقبال کے افکار و نظریات کے سانچے میں ڈھالیں تاکہ پاکستان ترقی کرے اور عالم اسلام کا مرکز و محور قرار پائے۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا ہے کہ شاعر مشرق کے افکار و خیالات دراصل امت مسلمہ کے ہر دردمند انسان کی آواز تھے آپ نے جہاں برصغیر کے مسلمانوں میں جذبہ حریت کو بیدار کرنے کی کوشش کی وہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کوقرآنی تعلیمات پر کاربند ہونے، سیرت رسول سے عملی اسفادہ کرنے، مشاہیر اسلام کے کردار کا مطالعہ کرنے اور اسلامی روایات و اقدار کو رواج دینے کی سعی کی۔ اس طرح ان کے ہمہ جہتی کلام اور موضوعات کا ثبوت ملتا ہے تاہم نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ مصور پاکستان نے ارض وطن کا جو خواب دیکھا تھا اور جو نقشہ بنایا تھا وہ نصف صدی سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود ہم شرمندئہ تعبیر نہیں کر سکے۔ ،ان کے کلام سے شعری چاشنی تو حاصل کی گئی لیکن اس میں مضمر پیغام کو نہیں سمجھا گیاان کے نام سے ادارے توبنائے گئے لیکن انکے پیغام کو عملی شکل دینے کی کوشش نہیں کی گئی ،آزادی اورحریت کا جو سلیقہ اقبال نے بتلایا اس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے قرآن و سنت اور تاریخ اسلام سے جس طرح مثبت انداز میں استفادہ کیا وہ ان طرئہ امتیاز تھا اس استفادے کا واضح اظہار آپ کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے جگہ جگہ پردینی ، پیغمبر اسلام اور دینی اقدار وروایات کو موضو ع کلام بنایا ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کی حالت زار بیان کرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ پر اغیار کی عسکری، علمی، فکری، اور ثقافتی یلغار پر بھی متعدد مقامات پر افسردگی اور بے چینی کا اظہار کیا ،مسلم عوام کو استکبار و استبداد کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا درس دیا اور انہیں اسلام جیسے عظیم اور آفاقی دین کی تعلیمات اپنے اوپر نافذ کرنے اور اپنی بہترین اور اعلی ثقافت کو اختیار کرنے کا پیغام دیا۔
آخر میں کہا کہ علامہ اقبال کے اس وسیع اور عالمی اہمیت کے حامل نظریات کی وجہ سے انہیں دنیا کے تمام معاشروں بالخصوص مسلم معاشروں میں بے انتہا عزت و منزلت حاصل ہوئی جس کے اثرات اب بھی نظر آتے ہیں۔